۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید صفی حیدر

حوزہ/ مذہب سب سے پہلا طریقہ یہ سیکھاتا ہے کہ دنیا میں جو زندگی بسر کرنے کے اصول اللہ نے بنائیں ہیں وہ نظام اسباب ہے، بیماری کا علاج دوا سے ہوگا پرہیز سے ہوگا اس نظام کو قبول کیا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کرونا جیسی وبا و مصیبت میں ہندوستان سمیت مختلف ممالک کے لوگ مبتلا ہیں، اس میں صبر و استقامت ہی نتیجہ بخش ہے، اور یہی قرآنی حکم ہے، ورنہ دشمن ہمیشہ کی طرح تاک میں لگا بیٹھا ہے کہ کچھ لوگ نا سمجھی میں اور کچھ سازشا اس کے شکار ہو کر مومنین کو من گھڑنت دعائیں اور عمل بتا رہے ہیں کہ مثلا یہ کرو تو نجات مل جاے گی۔ یہ پرھو تو فائدہ ملے گا،  اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے جب انسان کو فائدہ نہیں ہوتا تو وہ دین سے دور ہو جاتا ہے لھذا تمام مومنین کو چائیے سمجھداری اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوے وہی دعائیں، زیارات و اعمال انجام دیں جو معصومین علیھم السلام سے مروی ہیں اور جن کی مراجع کرام اور فقھاے عظام نے تاکید کی ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سید صفی حیدر سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنؤ نے بیان جاری کرتے ہوے مومنین کرام کو متوجہ کیا تا کہ مومنین راہ اہلبیت علیھم السلام کہ جو صراط مستقیم ہے اور اسی پر چل کر دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہوگی پر گامزن رہیں اور دشمن کی سازش ہمیشہ کی طرح ناکام رہے۔

سربراہ تنظیم المکاتب مولانا سید صفی حیدر نے فرمایا:  سلام علیکم حضرات!

اللہ آپ کی حفاظت کرے سب سے پہلی گذارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دنیا ہمیشہ راحت وسکون کی دنیا نہیں ہے۔ یہاں مصیبتیں اور راحتیں ملی جلی ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آخرت کی راحت وسکون والی دنیا ملےجو جنت ہےیہاں کی مشکلات کا سامنا دو طرح سے ہو سکتا ہے

(۱)گھبرا کے بےصبری کرکے،خوف زدہ وہوکے دہشت زدہ ہوکے

(۲)صبر سے استقامت سے۔

اس دنیا کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ:"ان مع العسر یسراً"ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے رحمت خدا اس کے غضب پہ غالب ہے کوئی مشکل ایسی نہیں جو حل شدنی نہ ہو، اس وقت میڈیا نے کرونا وائرس کو بے قابو مرض بنا کر پیش کیا ہے۔اس کے خطرناک ہونے میں شبہ نہیں کررہا ہوں لیکن جس طرح ہم دہشت زدہ ہوگئے ہیں گھبرائے ہوئےچو طرفہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں پورا معاشرہ دکھائی دے رہا ہے وہ اچھی بات نہیں ہے، اس وقت معاشرہ کی دوقسمیں ہوگئی ہیں:ایک طرف بے انتہائی غفلت سے اس بیماری کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں خود کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے دوسروں کو بھی، مذہب ان سے قطعاً راضی نہیں ہے وہ اگر خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اپنی لاپرواہیوں سے تو وہ خود کشی کریں گے اور اگر ان کی لاپرواہیوں سے دوسروں تک مرض پہونچتا ہے جو حکومت کے قوانین ہیں کہ گھر میں بیٹھو نکلو مت ان کی پابندی نہیں کر رہے ہیں، چور پولس کا کھیل کھیل رہے ہیں، چھپ کر ادھر سے نکل گئے وہ حرام کر رہے ہیں اور اگر ان کی اس لاپرواہی سے یہ بیماری پھیلی اور کسی کی موت ہوگئی تو اس کے قاتل قرار پائیں گے۔اور ان کو دیت دینی ہوگی دنیا میں اور آخرت میں قتل کی سزا بھکتنا ہوگی ۔

لیکن دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو انتہائی خوف زدہ ہاتھ پیر ماررہا ہے کہ یہ بھی کھالیں اور وہ بھی کھالیں، کچھ جاہل مکار انسانیت دشمن مختلف چیزیں بتا رہے ہیں ۔دواووں کی دنیا میں تو مجھے انسانیت دشمن نہیں دکھائی دئیے لیکن دعاوں کی دنیا میں اس و قت جو دشمنان دین اور انسانیت ہیں بالخصوص تشیع کے دشمن ہیں انھوں نے ہماری قوم کو پھر ایک مرتبہ بےراہ روی پر لگانے کی کوشش کی ہے ،طرح طرح کے اعمال بتائے جارہے ہیں کہ اذان کہو، یہ کرو، بال پیوو، دعا پڑھو اور وہ عمل کرو،رات میں دس بجے جاکر چھت پر اذان کہو، مذہب میں خصوصیت سے کسی ایک وبا کے آنے کے بارے میں اب کوئی طریقہ نہیں بتایا جا سکتا اس لئے کہ اب دورِ وحی نہیں ہے اور معصوم پردۂ غیب میں ہیں، لیکن ہمارا مذہب جامع مذہب ہے وباوں کے لئے، بیماری کے لئے، مشکلات کے لئے بالعموم جتنی دعائیں معصومین (علیھم السلام) نے کی ہیں وہ ہم کرسکتے ہیں اور اصلی بات ہے کہ خود دعائیں کر سکتے ہیں .اس کے بعد جو خزانہ معصومین سے موجود ہے اس میں ہمارے فقہا اور مراجع نے متعدد چیزیں بتائی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ،استغفار کریں،اس کے ساتھ ساتھ ذکر معصومین (علیھم السلام) کر کے ان کا توسل کریں ان سے توسل کریں ،ان کے ذریعہ اللہ تک بات پہونچائیں اس سلسلہ میں آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی مدظلہ نے مثلاً فرمایا کہ حدیث کساءپڑھ کے دعائیں کریں، اس میں روایت یہ بھی ہے کہ اس میں ملائکہ بھی دعائیں کرتے ہیں اور شفا ملتی ہے ۔یا زیارت عاشورہ پڑھیں ان کی مصیبتوں کو یاد کرکے اپنی مصیبتوں کو ہلکا سمجھیں تاکہ ناشکری کی طرف نہ جائیں ،صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔یا رہبر انقلاب (حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای دام ظلہ) نے فرمایا کہ صحیفہ کاملہ کی دعاوں میں جو ساتویں دعا ہے ایسے مواقع کے لئے جب انسانوں کے اوپر وہ مواقع آجائیں جو انسان کے ہاتھ اور قابو سے باہر ہوں تو اس کو پڑھیں ۔بہر حال بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو وارد ہوئی ہیں، اس وقت خاص کر کے کوئی عمل کوئی بتاتا ہے تو وہ جھوٹا ہے اور اس پر قطعاً بھروسہ نہیں کیا جانا چاہئے۔دوسری بات یاد رکھیں جو طریقے شریعت نے بتا دیئے ان پر عمل کریں نئے طریقے نہیں ایجاد کرنا ہے کہ ہم مثلا ًیہ زیارت پڑھیں اور فلاں امام کی ماں کو ہدیہ کریں اور پھر ان امام سے کہیں کہ آپ ہماری مدد کریں یہ سب باتیں ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جو بعض اہل منبر بھی اس طریقہ کی باتیں بتا رہے ہیں ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بلا ہے وبا ہے تو اس کے مقابلہ کےلئے تیار رہنا ہے ۔مذہب سب سے پہلا طریقہ یہ سیکھاتا ہے کہ دنیا میں جو زندگی بسر کرنے کے اصول اللہ نے بنائیں ہیں وہ نظام اسباب ہے، بیماری کا علاج دوا سے ہوگا پرہیز سے ہوگا اس نظام کو قبول کیا جائے۔ ڈاکٹروں کی رائے پر عمل کیا جائے حکومت کے ہدایات پر عمل کیا جائے ،سب سے آسان ہے خود کو بچانا جیسے گناہ سے بچانا آسان ہے توبہ کرنے کا اتنا بھروسہ نہیں ہے کہ قبول ہو یا نہ ہو اسی طرح اس بیماری سے بچانا آسان ہے بیماری کے بعد آدمی کو اطمینا ن نہیں ہے کہ کیا صورت ہوگی، البتہ دہشت پھلانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ کی رحمت غالب ہے ۔اور انشاء اللہ اللہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • ابرار کاظمی IN 21:46 - 2020/03/25
    0 0
    آپ کے ساتھ جوڑنا چاہیے ہیں